سائیکلنی

جس طرح لفظ " دوڑنا " لفظ " دوڑ " سے مشتق ہے، اسی طرح لفظ " سائیکلنا " لفظ " سائیکل " سے نکلا ہے۔ اس لیے انگریزی لفظ " سائیکلنگ " کا اردو متبادل " سائیکلنا " یا " سائیکلنی " ہے۔ انگریزی '' سائیکلنگ کلچر '' کے لیے اردو میں '' سائیکلنی تہذیب " یا " سائیکلنی ثقافت '' کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے۔ '' تہذیب '' اور '' ثقافت '' تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں [8]۔

dua xyz bicycle

دوسائیکلنی تہذیب

دوسائیکل سواری کی ترویج و ترقی کی تحریک دنیا بھر میں، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں، زور و شور سے جاری ہے۔ اسے شہری سائیکلنا (یا ''شہری سائیکلنی'') کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دوڑ سائیکلنی سے مختلف ہے، کیونکہ شہری سائیکلنا میں توجہ روز مرہ کے شہری سفر کو سائیکل کے زریعہ طے کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ عام لوگ دس پندرہ کلومیٹر کا یکطرفہ سفر بآسانی دو سائیکل پر کر طے سکتے ہیں۔ لمبے سفر کے لیے موٹرسائیکل، گاڑی، یا عوامی آمد و رفت نظام کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ مدرسہ، کالج، یا کام پر جانے کے لیے سائیکل کا استعمال موزوں ہے۔ چھوٹے اور درمیانہ وسعت کے شہروں میں فاصلے کم ہونے کی وجہ سے اندرون شہر سفر کی کثرت سائیکل کے زریعہ کی جا سکتی ہے۔ لاہور، کراچی جیسے بڑے شہورں میں لمبے فاصلے کے سفر پر عوامی آمد و رفت یا ذاتی گاڑی استعمال مناسب ہو سکتا ہے۔ اکثر شہروں میں عوامی آمد و رفت کے ناقص انتظام کی وجہ سے ان کا استعمال درد سر اور خلفشار کا باعث بنتا ہے۔ اس کے برعکس سائیکل پر سفر ذہنی آسودگی کا سبب ہوتا ہے۔

سائیکل کی ترویج میں رکاوٹ گاڑی مرور (ٹریفک) کی سڑکوں پر کثرت اور بے ہنگمی ہے جو سائیکل سواروں کے لیے خطرہ کا باعث بن سکتی ہے۔ اس وجہ سے اکثر لوگ شہر میں سائیکل چلانے سے گھبراتے ہیں۔ اس لیے ہمارا مقصد سڑکوں پر گاڑی ٹریفک کو نظم و ظبط کا پابند بنانا ہے۔ اس کے لیے گاڈی چلانے والوں کو تعلیم، تربیت، اور آگہی بہم پہنچانا اس عمل کا ایک حصہ ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے بعض حصوں میں سائیکل کے لیے مخصوص راستے بنانا، یعنی سائیکلی تحت الساخت کی تعمیر ہے۔ حالیہ برسوں میں لاہور اور راولپنڈی میں خطیر رقم صرف کر کے میٹرو بس کے منصوبے مکمل کیے گئے ہیں جن میں لاریوں کے لیے علیحدہ سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ اس طرح کے مخصوص راستے سائیکل سواری کے بھی لیے بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں تیل اور توانائی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے سائیکلی تہذیب کو فروغ دینے کی ضرورت سرکاری سطح پر محسوس کی جاتی رہی ہے اور سائیکل کی صنعت کی ترقی کے بارے میں منصوبہ بندی سفارشات بھی دی گئیں [5]۔ تاہم چین کی بنی ہوئی سائیکلوں کے بازار میں آنے کی وجہ سے ملکی صنعت ترقی معکوس کا شکار ہو گئی [6]۔

1980ء کی دہائی تک پاکستان میں سائیکل کا استعمال عام تھا۔ عام لوگوں کے علاوہ سرکاری افسران جس میں فوجی اور سول افسران شامل تھے سائیکل پر سفر کرتے نظر آتے تھے۔ اس کے بعد موٹرسائیکل اور ذاتی گاڑی کا استعمال بڑھنا شروع ہوا اور لوگ سائیکل کو غریب کی سواری سمجحھتے یوئے اس پر سفر کرنے میں عار محسوس کرنے لگے۔ اسی زمانہ میں معاشرہ میں شادی بیاہ پر پیسہ لٹانے کا رواج پکڑنے لگا۔ ان سماجی برائیوں کا احساس وقت کے حکمرانوں کو بھی تھا۔ اس کی ایک مثال 1979ء میں صدر ضیاالحق کا راولپنڈی میں ذاتی طور پر سائیکلی سفر کی شروعات کی کوشش ہے [1] ۔ دوسری مثال 1990ء کی مسلم لیگی حکومت نے شادی بیاہ پر بے پناہ خرچہ کو روکنے کے لیے قانون منظور کیا۔ حالیہ دور میں بھی یہ کوشش خیبر پختونواہ کی تحریک انصاف کی حکومت نے کی [2]۔ عدالت اعظمی نے بھی ان پرتعیش دعوٰتوں کی بیخ کنی کا حکم دیا ہے [4]۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ حکومتی سطح پر قانون بنانے سے یہ مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس لیے عوام کو اپنے طور پر تبدیلی کو کوشش کرنا ہے۔

یورپ کے کچھ ممالک میں سائیکلنی تہذیب برسوں سے گڑھ ڈالے ہوئے ہے۔ ان میں ھالینڈ (' نیدرلینڈ ' یا ' نیدرستان ') سر فہرست ہے [9]۔ کچھ یورپی شہر سایکلی تہذیب کے لیے مشہور ہیں جن میں ڈنمارک کا شہر کوپنھیگن سر فہرست ہے [10]۔ البتہ کئی ممالک میں یہ تہذیب مردگی کا شکار ہو گئی تھی، جیسا کہ انگلستان میں۔ موجودہ دور میں برطانیہ میں سائیکل سفر کو واپس لانے کی کامیاب کوشش کی جا رہی ہے [3]۔ اس میں عوامی سطح کی کوشش کے علاوہ بلدیاتی حکومتی اداروں کی کوشش بھی شامل ہیں۔ حکومت کا سایکلنی سفر کے فروغ میں دلچسپی شہری سڑکوں پر بے پناہ مرور پر قابو پانا اور شہری ماحولیاتی آلودگی میں کمی کرنے کے مقاصد کے حصول کے لیے ہے [7]۔ یہی کوشش اب پاکستانیوں کو عوامی سطح پر کرنا ہے تاکہ پاکستان میں سائیکلنی تہذہب قائم ہو اور ترقی کرے۔

logo logo logo logo logo logo

[1] Zia-ul-Haq bicycles, https://www.dawn.com/news/1176548

[2] PTI dowry ban, https://timesofislamabad.com/03-Mar-2017/kp-assembly-to-ban-dowry-limit-marriage-expenditures

[3] UK bicycles, https://www.theguardian.com/environment/bike-blog/2015/mar/10/the-demise-and-rebirth-of-cyling-in-britain

[4] Curbing extravagance, https://blogs.tribune.com.pk/story/27520/one-dish-law-curbing-the-extravagance-of-pakistani-weddings/

[5] SMEDA, http://www.irispunjab.gov.pk/StatisticalReport/Manufacturing%20Industry%20Data/Bicycle%20Sector.pdf

[6] Karachi bicycle bazar, https://www.dawn.com/news/1173925

[7] Mayor of London, https://www.independent.co.uk/news/people/boris-johnson-finally-responds-to-cyclist-who-gave-him-the-middle-finger-a6745501.html

[8] OUD, http://182.180.102.251:8081/oud/ViewWord.aspx?refid=4796

[9] 'Why is cycling so popular in Netherlands', http://www.bbc.com/news/magazine-23587916

[10] Denmark bicycle culture, http://denmark.dk/en/green-living/bicycle-culture

social